پہلے بچوں سے پسندیدہ کھیل پوچھتے تھے تو جواب میں کرکٹ،فٹ بال،باسکٹ بال اور کبڈی سننے کو ملتا تھا۔ آج کے بچوں سے پوچھیں تو کینڈی کرش،فری فائر،پب جی،لڈو سٹار اور ٹین پتی گولڈ سننے کو ملتا ہے ۔ یہ تبدیلی ایک دو سالوں میں نہیں آئی بلکہ آدھی دہائی لگی ہے۔جیسے ہی ٹچ سکرین سے لوگ نئے نئے آشنا ہوے اور تھری جی فور جی ہر ایک کی دسترس میں آیا تو یہ بیماری بھی ساتھ آئی ۔ اب بیماری تو آ گئی ہے تو اب پرہیز کرنے کا وقت گزر چکا ہے کیونکہ پرہیز بیماری سے پہلے ہوتی ہے ، بعد میں صرف علاج کیا جاتا ہے۔اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو بیماری بگڑتی چلی جاتی ہے اور لا علاج ہو جاتی ہے۔
موضوع یہ ہے کہ بچے جو ہمارے مستقبل کے معمار ہیں وہ موبائل کا استعمال کس طرح کر رہے ہیں آیا کوئی صحت مند پروگرام دیکھ رہے ہیں یا بدتمیزی اور بے حیا والا کانٹینٹ دیکھ رہے ہیں ۔ اب والدین کہیں گے کہ ہم تو بس بچوں کو کارٹونز دکھاتے ہیں؟ میرا ان سے سوال ہے آپ نے کبھی بچوں کے ساتھ بیٹھ کے کارٹونز دیکھے ہیں؟ نہیں دیکھے، تو دیکھیے گا آپ کو اندازہ ہو جائے گا یہ کارٹونز کم اور ایک بے حیائی والی چھوٹی سی مووی زیادہ ہے ۔
میری ایک دوست اتنی حیران تھی کہ اس کی چھوٹی سی بتھیجی پریگنٹ اورابارشن جیسے لفظ بول رہی تھی ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کچھ کارٹونز ہیں جن میں شادیاں بھی ہوتی ہیں ارو بچے بھی ہوتے ہیں ۔ اب ایسی صورتحال میں کیا ہم کارٹونز کو بچوں کے لیے محفوظ سمجھتے ہیں؟ٹچ سکرین کے بغیر گزارہ نہیں؟
اب اس کا حل کیا ہے؟ بچے سکول سے آ کر سارا وقت کارٹونز دیکھتے ہیں تو ان کو کیسے بچایا جائے؟ باپ معاش کی فکر میں ہیں ۔سادہ لوح مائیں اس بات پے ہی خوش ہیں کہ باہر کا ماحول خراب ہے بچہ گھر تو بیٹھا ہے ان کی کوئی توجہ نہیں۔ چار سے پانچ سال کے بچے کارٹونز دیکھے جا رہے ہیں اور والدین اپنے کام نبٹانے میں مگن ہیں۔اتنے چھوٹے بچوں کو خود نیٹ آن کر کے یوٹیوب سے کارٹونز لگانا آتا ہے۔ ماؤں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ بچے کے ساتھ بیٹھ کے دیکھیں کہ وہ کون سے کارٹونز دیکھ رہا ہے۔بس جب بچے نے مانگا موبائل دے دیا اور خود کاموں میں مصروف ہو گئیں پھر جب بچوں نے چھوڑا تھک کے سو گے یا ٹیویشن چلے گے تو مائیں خود ڈرامے دیکھنے لگ جاتیں۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے ۔ بچوں کا ذہنی و جسمانی کتنا بڑا نقصان ہے ۔ ایسے ماں باپ کو آنے والے چند سالوں میں خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔تین سے دس سال کے بچے کو معیاری وقت نہ دیا جائے ، اس کے ساتھ کھیلا نہ جائے،چھوٹے چھوٹے کاموں میں معاون نہ بنایا جائے،مدد کرنا نہ سکھایا جائے موبائل کے حوالے کر دیا جائے تو میں اسے چائلڈ ابیوز ہی سمجھتی ہوں ۔ ذہنی و جسمانی بد ترین استحصال سمجھتی ہوں اور اس کے ذمہ دار والدین ہیں جو اپنے بچوں پے یہ ظلم کر رہے ہیں۔
والدین کو ابھی اس بات کا اندازہ نہیں ہے جیسے ہی بچہ میٹرک میں جائے گا آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ہوں گی اور عدم برداشت کا نمونہ بنا ہوا ہو گا۔ پھر یہ ہی والدین کہیں گے کہ پڑھ لو ۔ تب بچہ کہاں پڑھے گ۔ ا اب تو مار کر کام کروانے کی بھی عمر گزر چکی ہو گی۔اب تووالدین کے ڈرنے کی باری ہو گی۔اور کچھ کیسیز میں تو بچے آگے سے ہاتھ اٹھانے پے بھی گریز نہیں کریں گےپھر ہائے ہائے مچی تو کیا فائدہ۔ اس سے بہتر ہے ابھی سے معاملات کی طرف گہری نظر ثانی کی جائے اور اپنے بچوں کو بچایا جائے۔چھوٹے بچوں کو موبائل سے کیسے دور رکھا جائے۔
اس بارے میں اپنی خود کی آزمودہ تجاویز لکھ رہی ہوں۔
خود کی اصلاح کریں
جو کام والدین کریں گے وہ ہی بچے کریں گے ۔اگر آپ خود بچوں کے سامنے بہت موبائل کا استعمال کرتے ہیں تو پھر موقع ملتے ہی بچے بھی موبائل پکڑیں گے۔ضروری کال کے علاوہ بچے کے سامنے موبائل نہ پکڑیں میں نے جو تبصرے اور لکھنے لکھانے کا کام کرنا ہو، وہ فجر کے بعد کرتی جب بچے سوئے ہوتے۔
جسمانی کھیل کھیلیں
بچوں کو فارغ اوقات میں موبائل پکڑانے کی بجائے کھیلوں کی طرف راغب کریں۔میرے دو بڑے بچے جن کی عمریں تین اور پانچ سال ہیں کبھی کھلونوں کی دکان لگا دی، کبھی جوتوں کی، کبھی وہ آلو پیاز ہی لے کر بیٹھ جاتے ہیں کبھی گتے کے بڑے بڑے کارٹن دے دیے، رسی ڈال کےان کو گاڑی بنا لیتے۔جب میرے پاس وقت ہوتا تو ہم چھپن چھپائی اور پکڑن پکڑائی کھیلتے۔ان کو اتنا مزا آتا اب وہ اکیلے کھیلیں تو آوازیں لگائیں گے مما ہمارے ساتھ کھیلو ہمیں پکڑو۔ ایسی سرگرمیاں اپنانے سے بچے خود ہی موبائل سے دور ہو جائیں گے۔
شعور دیں،رہنمائی کریں
بچے کبھی کبھی ضد کرتے ہیں کارٹون دیکھنے کی۔ ان کو سمجھا دیا ہے کہ زیادہ دیکھنے سے آنکھیں خراب ہوتیں دو تین فرضی کہانیاں سنا دی ہیں کہ جن بچوں نے موبائل زیادہ دیکھا ،ان کی آنکھوں کے ساتھ کیا ہوا۔بچے موبائل کا ذکر چھوڑ کر کہانی سننے لگ جاتے کئی دفعہ تو ایسا ہوا ہے کہ خود ہی کہہ دیتے کارٹون نہیں دیکھنے ان بچوں کی کہانی سناو۔
سونے سے پہلے کہانی سنائیں
ہمارے گھر میں معمول ہے کہ سونے سے پہلے بچوں کے پاپا کہانی سناتے پھر دعائیں پڑھ کے سو جاتے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو سارے صحابہ کے پیغمبروں کے واقعات یاد ہو گے ہیں ۔ بڑا بیٹا مسجد گیا تو پندرہ سے بیس پیغمبرز کے نام بتائے تو سب لوگ بہت حیران ہوے کہ اس کو سارے واقعات کا پتہ ہے۔ آپ بھی اپنے گھر میں یہ ترتیب شروع کیجیے ۔اگر خود کی معلومات نہیں تو پہلے خود مطالعہ کریں پھر وہ واقعات بچوں کو سنائیں اس میں بہت لطف ہے۔کبھی کبھی تھکاوٹ سے کہیں کہ آج کہانی رہنے دو تو وہ ضد کر کے سنتے اتنا ان کو مزہ آتا ہے۔
کون سے کارٹونز دکھائیں
جب کوئی چیز عام ہوتی ہے تو اس کو مکمل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالا جاتا ہے ۔ یہ ہی معاملہ کارٹونز کے ساتھ ہوا ۔ مکمل پابندی ممکن نہیں کہ یہ ٹچ سکرین کے دور کے بچے ہیں۔ زیادہ سختی احساس کمتری میں مبتلا اور باغی بنائے گی۔ کبھی کبھار تھوڑا وقت تفریح کے لیے کارٹونز دکھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہندی کارٹون اور اردو سٹوریز کا مکمل بائکاٹ کریں وہ چھوٹی سی رومانوی فلم ہوتی ہے۔ غلام رسول اور کنیز فاطمہ دکھائیں وہ بہت اچھے کارٹونز ہیں دعائیں اور اچھی اچھی چیزیں سکھاتے ہیں ہمارے بچے بھی یہ ہی دیکھتے ہیں۔تفریح کے ساتھ ساتھ بچہ دینی اقدار بھی سیکھ جائے گا۔
ٹائم ٹیبل بنائیں
اپنے ساتھ ساتھ بچوں کا ٹائم ٹیبل بھی بنائیں کہ کب سونا ؟کب اٹھنا ؟کب پڑھنا؟ کب کھیلنا ہے؟ اس کے مطابق بچے چلیں ۔ اس سے بچوں کو زندگی کی زندگی میں توازن آئے گا اور کھیل کود کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی ہوتی رہے گی۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔