اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا ایک بھیانک اور تکلیف دہ عمل ہے لیکن انسان جینےکے ہاتھوں تنگ آ کر اسے محرکات سرانجام دیتا ہے ۔ خودکشی کا رجحان سب سے زیادہ جاپان میں پایا جاتا ہے اور اس عمل کو وہاں دلیری اور بہادری کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مردوں میں خود کشی کے رجحانات زیادہ پائے جاتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورتوں کی تعداد کم ہے ؟ہر گز نہیں اب تو اس جانب چھوٹے بچے بھی رجوع کرتے ہیں ۔
اپنی جان لینا آسان بات نہیں ہوتی ہے ۔آئے روز سننے کو ملتا ہے کہ فلاں کے بچے نے خودکشی کر لی ۔آخر کیوں؟ ہمارے اسلام میں خود کشی حرام ہے اور ہمیں اس امر کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے۔سال انیس ،بیس اور اکیس نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہیں کہ بعض لوگ بےروزگاری کی وجہ سے بھی خودکشی کرتے ہیں ۔دوسری جانب اس وبا کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ آن لائن کر دیا گیا یا بچوں کو واٹس ایپ پر کام دیا جانے لگا ۔
تمام ماں باپ نے اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر بچوں کو سیل فون لے کر دیے ۔انگریزوں نے سیل فون کو ایجاد کیا لیکن شاہد وہ بھول گئے تھے کہ پاکستانی عوام جس بے دردی سے چیزوں کا استعمال کرتی ہے اور غلط راستے پر نکل جاتی ہے اس میں ان کے بنانے کا قصور نظر آتا ہے لیکن پانچوں انگلیاں برابر بھی نہیں ہوتی۔بعض بچوں کے والدین پڑھےلکھے ہوتے ہیں اور وہ انہیں زیادہ مثبت استعمال کا ہی مشورہ دیتے ہیں اور بعض جن کو پڑھنےلکھنے سے حالات نےمحروم رکھا ہو انہیں سیل فون کے متعلق علم نہیں ہوتا اس میں ان کی بھی کوئی غلطی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو بھروسا کرکے ہی سیل فون دیتے ہیں۔
سیل فون کے منفی استعمال کو موجودہ دور میں خودکشی کی طرف رجوع کرنے والا پہلا قدم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ والدین کو اپنے بچوں سے امیدیں ہوتیں ہیں لیکن سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کا اثر انسان کی ذہنی صحت پہ ہوتا ہے۔زندگی کا بیشتر حصہ اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر اپنی اولاد کو پالنا اور اولاد کا خود کشی کرتے جان سے جانا کتنا دکھ دہ عمل ہے۔ بقول شاعر
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا کچھ یاد نہیں۔
خود کو مارنے کا قدم انتہائی مشکل کام ہے۔اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان لینے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ۔خود کشی کرنا گناہ کیبرہ ہے ۔دنیا کی مصیبتوں سے تنگ آکر اپنی مصیبتوں کا حل نہیں ہے یہ تو بزدلی کے زمرے میں آتا ہے۔رب پاک نے تو انسان کو تو اشرف المخلوقات بنا کہ دنیا میں بھیجا ہے جب فرشتے یہ کہہ رہے تھے کہ انسان زمیں میں فساد برپا کرے گا تب ان کی بات نہ مانی گی اور خدا ذوالجلال نے انسان کو زمین پہ اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ بقول شاعر
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
خدا نے تو اپنی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے انسان کو پیدا کیا تو پھر خدا کے حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی جاتی؟خودکشی کرنے والے کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جاتا ہے تاکہ باقی عوام اس بات سے عبرت حاصل کریں اور وہ یہ بھی سکیھیں کہ اس مرنے والے کا تو کوئی پیچھے ہاتھ بھی نہیں اٹھاتا ہے ۔خودکشی کرنے والا تو مشکلات سے فرار ہونے کے لیےایسا راستہ اختیار کرتا ہے۔یہ بات کیوں ہمیں باور نہیں ہوتی کہ خود کشی ایک غلط اور ناپسندیدہ عمل ہے جس سے آدمی کی آخرت خراب ہوتی ہے
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا
جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا
انسان پر یہ بات واجب ہے کہ وہ بہ حد امکان اپنی جان کی حفاظت کرے کیونکہ زندگی اس کے پاس خدا کی امانت ہے اور امانت کی حفاظت اسلامی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے ؛ اسی لئے اسلام کی نگاہ میں ’’خود کشی‘‘ بہت بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے ۔ بقول شاعر
سلگنا اور شئے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہوگا
المختصر انسان اپنی زندگی کا مالک خود ہر گز نہیں ہے بلکہ امین ہے زندگی تو خدا کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ ہے ۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدا نے گلاب کے درخت کو پھول بھی دیے ہیں اور سارے کانٹے بھی، مگر پھر بھی وہ کبھی کانٹوں کے ڈر سے مرجھاتا نہیں ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ترجمہ: ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔