احساسِ کمتری خود کودوسروں سے کمتر ماننے کی بیماری ہے۔ اس میں انسان اپنی کسی کمی کو اتنا محسوس کرتا ہے کہ اسے خود میں کوئی خوبی نظر ہی نہیں آتی۔ وہ خود کو سب سے کمتر سمجھنے لگتا ہے ، اگلے مرحلے میں ایسا انسان تنہائی پسند ہو جاتا ہے اور خود کو لعنت ملامت کرنا شروع کر دیتا ہے۔آہستہ آہستہ یہی ہر وقت کی خود کو کی گئی لعنت و ملامت کا اثر دماغ کے ساتھ ساتھ جسم پر بھی ہونے لگتا ہے اور مریض ذہنی و جسمانی طور پہ کمزور ہو جاتا ہے۔
آسٹریا کے مشہور ماہرِ نفیسات الفریڈ ایڈلر جس نے پہلی دفعہ احساسِ کمتری کی بیماری کو دریافت کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ "یہ وہ جذبہ ہے جو جسم میں چھپے ہوئے خدشات ، غم اور دہشت سے پیدا ہوتا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ جسمانی و عضوی کمزوری پر قائم ہو کر اپنی ذات کے بارے میں منفی سوچ پر رک جانا ہے۔ جس کے نتیجے میں گاہے بگاہے خود کو لعنت و ملامت کرنےیا کوستے رہنے سے انسان نارمل نہیں رہتا”۔
ایڈلر نے احساسِ کمتری سے بچنے کے لیے یہ تراکیب بتائیں ہیں۔
کسی سے اپنی شخصیت کا موازنہ کرنا چھوڑ دیں۔
اپنی کمزوری کو نظر انداز کر کے اپنی صلاحیت دوسری طرف لگائیں۔
اپنے آپ کو نامکمل سمجھنا چھوڑ دیں اور غلطیوں کا جائزہ لے کرانہیں درست کریں۔
ایڈلر نے احساسِ کمتری کے حل کے لیے جو تجاویز دی وہ گو کہ انتہائی معقول اور قابل عمل ہیں لیکن اس میں احساس کمتری کی اصل وجوہات حسد اور مایوسی سے چشم پوشی کرلی گئی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلٰہ وسلم نے احساس کمتری و برتری کی اصل وجوہات ختم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔جن میں سب سے پہلا قدم سب انسانوں کو برابر جاننا ہے ۔جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے وقت کہا: "کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے سوا۔ اور تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے”۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نفسیات کا ایک نہایت اہم اصول بتا رہے ہیں کہ نہ تو کوئی خود کوبرتر سمجھے اور نہ کم تر۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اس کے متعلق ہدایات دیں بلکہ خود بھی ان پہ عمل کر کے دکھایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے بنو ہاشم کی بہت سی عورتوں کی شادیا ں ان کی رضامندی سے غلاموں سےکروائیں۔ جس سے ایک طرف نسلی برتری کی سوچ ختم ہوئی وہیں یہ رشتے احساس کمتری اور کسی نسلی برتری کے باطل احساس کو ختم کرنے کی وجہ بھی بنے۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم ہر اس عمل سے منع فرماتے جس سے احساس برتری یا احساسِ کمتری کا جذبہ ابھرتا ہو۔ اپنے مسلمان بھائیوں حتی کہ غیر مسلموں کے عزت و وقار کا خیال رکھنے کا حکم دینا ، ایک دوسرے سے مروت و اخلاق سے پیش آنے کا حکم دینا، جاسوسی ،برائیاں ، غیبت و بہتان سے منع کرنا بھی انہی اقدامات میں سے ہیں تا کہ کسی میں احساسِ گناہ پیدا نہ ہو۔اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے دعوتوں اور تحائف کا قبول کرنا، برے ناموں کی تبدیلی، بیمار کی عیادت اور جنازوں میں شریک ہونے جیسے احکامات دیئے۔
حج احساس کمتری و برتری کا سب سے موثر علاج ہے جو آپﷺ نے اللہ کے حکم سے متعارف کروایا۔ جب حج کے موقع پر تمام انسان چاہے امیر ہو یا غریب، حکمران ہو یا غلام ایک جیسا لباس پہن کر اکٹھے مناسک حج ادا کرتے ہیں تو تکبر و احساس کمتری کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے ۔ احساسِ برتری و کمتری کا روزمرہ زندگی میں ایک اور علاج جو حضورﷺ نے بتایا وہ ہے نماز۔ جب سب انسان ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ چیز انسانوں کو تکبر و احساس برتری اور غریبوں کو احساس کمتری سے بچاتی ہے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔