کردار سازی

نانی کے گھر کو ہمیشہ آباد رکھنا چاہیے

آج اتوار کا دن تھا۔ سب بچے چھٹی منانے کے لیے نانی اماں کے گھر جمع تھے۔ مل کر کھیل کود کر رہے تھے۔ لڑکے الگ اودھم مچا رہے تھے۔ ساتھ ہی نانو جان سے اصرار کر کے کہانی سنانے کو بھی کہا گیا۔ جسے آدھے بچے بڑے دھیان سے سن رہے تھے۔

اچانک کہانی سنتی لائبہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ باغیچے میں لگے امرود کے پودے سے امرود کھایا جائے۔  وہ اٹھ کر قد آور پودے کے پاس گئی ہی تھی کہ کھیل کھیلتے ہوئے  لڑکے بھی پودے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اتنے میں لائبہ کو پودے پر ایک بہت پکا ہوا ، دلکش اور موٹا سا امرود نظر آیا وہ جوش  و خوشی سے چلائی :”وہ دیکھو امرود”۔ سب اس کے اُٹھے ہاتھ کی طرف دیکھنے لگے۔

لائبہ نے تیزی سے پاس پڑی چھڑی اٹھائی اورامرود کو تاک کر نشانہ لگایا۔ امرود فورا اتر کر نیچے آ گرا۔ مگر لڑکے جو کہ امرود ڈھونڈنے مین مصروف تھے انہیں لگا کہ ابھی امرود نیچے نہیں آیا۔

لڑکوں میں سے حسیب نے بھاگ کر ایک اور چھڑی اٹھائی اور لگا اس سے نا نظر آنے والے امرود کو نشانے لگانے۔ جب محمد علی اور نعمان نے دیکھا کہ حسیب کی کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں تو انہوں نے اس کی مدد کرنی چاہی اور بھاگ کر ٹہنی سے لٹک گئے تا کہ امرود تھوڑا نیچے آئے اور آسانی سے اتارا جا سکے۔ پر  پودے کی ٹہنی کہاں ان کا وزن سہارتی ۔ اس لیے ٹہنی ان دونوں سمیت ٹوٹ کر زمین پر آ گری۔ مگر امرود تھا کہ پھر بھی نہ ملا۔

  نئی نسل کی تعلیم و تربیت

مایوس ہو کر تینوں لڑکے واپس کھیلنے کو جانے لگے ۔ جاتے جاتے حسیب نے آخری کوشش کے طور پر چھڑی اوپر کو پھینکی جو واپس نیچے آ کر نیچے بیٹھی نانی اماں کی آنکھ کے قریب لگ کر انہی کے پاس بیٹھی طیبہ کے ہاتھ کو زخمی کر گئی۔ جس پر طیبہ گلا پھاڑ کر رونے لگی۔

طیبہ کو چپ کروا کر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ نانی جان اپنی ادھوری کہانی مکمل کرنے لگیں جب کہ لڑکے پھر سے پاس کھیلنے لگے۔ اور لڑکیاں کہانی  سننے میں محو ہو گئیں۔

کہانی سنتے سنتے لائبہ کی طرح اب طیبہ کے دل میں نجانے کیا آئی کہ اٹھ کر پاس لگے مالٹے کے پودے کی طرف جا کر ٹہلنے لگی۔ ٹہلتے ٹہلتے اس نے دیکھا کہ بہت ہی پیارا سا مالٹے کا پھل نیچے گرا ہوا ہے۔ مگر جھک کر اٹھانے پر پتا چلا یہ تو وہی امرود ہے جس کی وجہ سے نانی اور وہ زخمی ہو چکی ہیں۔ اور جس کی وجہ سے ایک ہنگامے بھرپا ہو چکا ہے۔ اس نے امرود اٹھا کر جیب میں ڈالا اور نظر بچا کر نانو کو دے کر کہا آئیں کھاتے ہیں۔

پھر نانو اور طیبہ نے مزے لے لے کر وہ امرود کھایا ۔اور امرود پر حق بھی تو انہی کا بنتا تھا کیوں کہ امرود کی وجہ سے زخم بھی تو انہوں نے ہی کھائے تھے۔

یہ ایک عام سا دن ہے جسے نانو کے گھر نے خاص بنایا سارے بچے شام کو بیٹھے باقی گھر والوں کو وہ چند لمحوں کا واقع سنا رہے تھے کہ کس طرح کس نے امرود کھانا چاہا، اور کس نے کیا توڑا۔اورسناتے ہوئے وہ سب خود کو تروتازہ اور خوش محسوس کر رہے تھے۔ سب بچوں کے تمتماتے چہرے اس بات کی عکاسی کر رہے تھے کہ انہوں نے ان لمحات سے بہت لطف اٹھایا۔

  اپنے اندر کے انسان کو پہچانئے

 اس دن کی رواداد میں کچھ باتیں چھپی ہیں۔

سب سے بڑی بات یہ کہ آج کل کے بچے بھی نانی کی کہانی کو  سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بشرطیکہ نانی اماں سکون سے بیٹھ کر کہانی سنانے کا وقت نکال لیں۔

آج بھی بچے کھیل کود اور اودھم مچانے کو پسند کرتے ہیں مگر ہم بڑے ان کا شور برداشت نہ کرتے ہوئے انہیں موبائل جیسا دشمن پکڑا دیتے ہیں۔

آج بھی امرود یا کوئی بھی گھر کا پھل کھانے کے لیے بچے ہنگامہ مچاتے ہیں ۔اگر انہیں خود اتارنے دیئے جائیں تو مگر ہم بڑے ڈرتے ہیں کہ انہیں چوٹ نہ لگ جائے اس لیے انہیں موبائل کے حوالے کر کہ خود پھل کاٹ کر ان کو پیش کرتے ہیں ۔ حالانکہ خود اتار کر کھانے میں ذہنی و جسمانی صحت اور موبائل کے استعمال میں ذہنی و جسمانی سستی چھپی ہے۔

ایک نانی کا گھر ایسا ہے جہاں سب کزنز کھل کر کھیل سکتے ہیں اس لیے نانی کے گھر کو ہمیشہ آباد رکھنا چاہیے۔

5/5 - (1 vote)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔