ہمارا معاشرہ بد اخلاق ہو چکا ہے ۔ ہمارا ہر رشتہ چاہے وہ ماں کا یا باپ کا ہو ، شوہر یا ساس کا ہو ،بھائ یا بہن کا ہو ،نند یا بھابھی کا ہو ۔ ہمیں ان تمام رشتوں سے خوش اخلاقی کم اور بد اخلاقی زیادہ ملتی ہے ۔ ماں کا اخلاق اگر اچھا ہو تو گھر جنت بن جاتا ہے ۔ لیکن اگر باپ بد اخلاق ہو تو وہ جنت دوزخ بن جاتی ہے ۔ یہ جن پر بیتتی ہے وہی جانتے ہیں کہ کیا کچھ سہنا پڑتا ہے ۔ زبان کی کڑواہٹ وہ کڑواہٹ ہے جو ہم با خوشی دوسروں پر انڈیل دیتے ہیں۔ ہماری زبان یا کڑوی ہوتی یے یا طنز سے بھرپور۔ بچوں کے ساتھ حاکمانہ رویہ اور تلخ لہجے ہماری روایت بنتے جا رہے ہیں۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں جتنا اونچا اور تلخ بولیں گے، اگلے پر اتنا ہی اثر ہوگا۔ وہ نہیں جانتے کہ محبت اور پیار کے لہجے میں کتنی طاقت ہے ۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہر رشتے میں جڑے لوگ دلوں میں رنجشوں کو آباد رکھتے ہیں اور یہی زہر آنے والی نسلوں میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے ۔ بہت ہی غیر محسوس طریقوں سے الزام دوسروں کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے ۔
اس دنیا میں حسن خلق بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لوگوں کو ان کے حسن اخلاق سے پہچانا جاتا ہے ۔ اللہ کے قریب رہنے والے میں حسن خلق موجود ہوگا جبکہ کہ بد اخلاق اللہ سے اور اللہ کے بندوں سے بہت دور ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ کو حسن خلق کی خصوصی تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ” جہاں کہیں بھی رہو اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور لوگوں کے ساتھ ساتھ خوش خوئی سے پیش آؤ ” ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔
مومن اپنے حسن خلق کی وجہ سے برابر روزہ رکھنے اور قیام کرنے والے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ۔ مومن کے ترازو میں سب سے وزنی چیز حسن خلق ہے۔ ان تمام احادیث کی روشنی میں میں اب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں کیا ہمارا اخلاق اچھا ہے؟ کیا ہم دوسروں سے بات کرتے ہوئے اپنے الفاظ کا چناو کرتے ہیں یا جو بھی دل میں آئے بول دیتے ہیں۔ ہم تو اپنے الفاظ سے دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھول دیتے ہیں۔ کیا ہم بحیثیت انسان خوش اخلاق ہیں ؟
آج لوگوں کے بولنے کا انداز دیکھیں کوئی سیدھا لفظ بولتا ہی نہیں۔ زہر میں ڈوبے الفاظ جو اگلے بندے کا دل چیر کر رکھ دیں۔ آج اسلامی تعلیمات کہاں ہیں؟ خوش اخلاق اور اخلاق حسنہ کی پیروی کرنے والے کدھر ہیں؟ لوگ سمجھتے ہیں اچھا اور نرم بولیں گے تو اگلا بندہ سر پر چڑھ جائے گا ۔
لوگ اپنی اپنی دوزخ اپنی زبانوں میں رکھ کر جنت کی آرزو میں مبتلا ہیں۔
خدارا معاشرے کو بچائیں۔ غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے ۔ ہم کیوں اسے خوش کر رہے ہیں۔ رب کو راضی کریں۔ نرم لہجہ اپنائیں۔ رب کے سامنے کیا منہ لیکر جائیں گے۔ ایک میٹھا بول سچ میں دل سے کدورتوں کو دور کر دیتا ہے ۔
آئیے، عہد کریں کہ ہم کم از کم ہم تو خوش اخلاق بن سکتے ہیں۔ اخلاق حسنہ کی تعلیمات کو عام کر سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اخلاق سے بات کرنا سکھائیں۔ نرمی سے بات کرنا سکھائیں۔ اونچی آواز تو گدھے کی ہے جس کو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے۔ مومن تو نرم مزاج ہوتے ہیں۔ ہم اخلاق سے عاری لوگ مسلمان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں کجا کہ مومن کہلائیں۔ اپنا اخلاق بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش آج سے شروع کریں ان شاء اللہ اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔