کوذہ گر پوری توجہ سے گھومتی ہوئی چکّی پر کوذہ بنانے میں مصروف تھا۔ پاس بیٹھی کم سن آرزو بڑے انہماک سے گھومتی چکّی اور کوذے کو دیکھ رہی تھی۔
کوزہ تیار ہونے پر کوذہ گر نے بڑی ہی مہارت سے گھومتی چکّی پر سے کوذہ اُٹھا کر ہتھیلی پر جمایا اور آرزو کے سامنے کیا۔ اُس نے احتیاط سے کوذہ گر کی ہتھیلی پر سے کوذہ اُٹھایا اور دھوپ میں خشک ہونے کے لیے رکھ آئی۔ اب کوذہ گر پھر سے چکی پر ایک نیا کوذہ بنانے میں مصروف ہو گیا۔ آرزو اُسی توجہ اور تجسس سے کوذہ بنتا دیکھتی رہی۔جب تین چار کوذے بن چکے تو اُس نے کوذہ گر سے کہا،
"بابا، اب میں بناؤں؟”
کوذہ گر نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا،
"تُو ابھی بھی نہیں بنا پائے گی آرزو۔”
"لیکن کیوں بابا، میں کیوں نہیں بنا سکتی؟ اِتنی محنت سے میں ہر بار کوشش کرتی ہوں۔ لیکن کبھی بھی میرا کوذہ اندر سے خالی نہیں بن پاتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے بابا؟”
ہر بار کی ناکامی سے اب وہ تنگ آ چکی تھی اِس لیے جھنجلا کر بابا سے پوچھ رہی تھی۔ کوذہ گر نے مسکرا کر ایک بار نظر بھر کر اُسے دیکھا اور پھر اپنی توجہ کوذے پر مرکوز کرتے ہوئے بولا،
"کیونکہ تُو ابھی کوذہ بنانے کی سینس (سائنس) نہیں جانتی میری دھی۔”
"ہیں۔۔۔۔؟؟ کوذہ بنانے کی بھی کوئی سینس ہوتی ہے بابا؟”
کوذہ گر کے جواب پر وہ کافی حیران ہوئی تھی۔
"ہاں میری بچی، ہوتی ہے۔”
کوذہ گر نے اُس کی طرف دیکھے بِنا جواب دیا۔
اِس جواب سے اُس کے تجسس میں مزید اضافہ ہو گیا۔
وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر کوذہ گر کے قریب جا بیٹھی اور ایک اور سوال کیا،
"بابا، کوذہ بنانے کی سینس کیسی ہوتی ہے؟ کیا یہ بھی ویسی ہی ہوتی ہے، جیسی بڑے بڑے اور اونچے اونچے انگریزی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے؟ اور اگر ویسی ہی ہوتی ہے تو آپ نے کیسے سیکھی؟ آپ تو کبھی انگریزی اسکول میں پڑھنے بھی نہیں گئے؟”
ایک ہی سانس میں تین سوال پوچھنے کے بعد وہ چہرے پہ معصومیت سجائے جواب طلب نظروں سے بابا کو دیکھنے لگی۔
کوذہ گر نے ایک بار پھر مسکرا کر اُسے دیکھا اور پوری طرح اُس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا،
"نہیں میری دھی، کوذے کی سینس انگریزی اسکولوں والی سینس جیسی نہیں ہے۔ اِس کی اپنی ایک الگ سینس ہوتی ہے۔”
"تو پھر مجھے یہ سینس سکھاؤ نا بابا۔ مجھے بھی آپ کی طرح اچھے اچھے کوذے بنانا سیکھنا ہے۔”
اُس نے التجائیہ انداز میں بابا سے کہا۔ جواباً کوذہ گر اُسے پاس بٹھاتے ہوئے بولا،
"یہ سینس سیکھ کر کیا کرے گی تو؟ تجھے میں انگریزی اسکولوں والی سینس پڑھاؤں گا اور ڈاکٹر بناؤں گا۔ تجھے یہ کوذے کی سینس سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
"سچ میں بابا؟ میں بھی یہ بڑے اور اونچے والے انگریزی اسکول میں سینس پڑھوں گی؟”
اُسے ایک بار پھر حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ اِس لیے بے یقینی کے تاثرات لیے سوال کیا۔
"ہاں میری بچی۔ ان شاء اللہ۔”
کوذہ گر نے آنکھوں میں ایک اُمید لیے جواب دیا۔
"ٹھیک ہے بابا۔ وہ سینس تو میں وقت آنے پہ سیکھ لوں گی، پر ابھی مجھے یہ والی سینس سیکھنی ہے، کوذے والی۔ سِکھا دو نا۔”
کچھ دیر سوچ بچار کرنے کے بعد جب اُس نے منہ کھولا تو اُس کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
"پُتر ایک بار تو وہ والی سینس سیکھ جا۔ یہ والی خود بخود آ جائے گی تجھے۔”
کوذہ گر نے اب اُسے بات ختم کرنے کے سے انداز میں جواب دیا۔
"خود بخود کیسے آئے گی بابا۔ سینس تو سیکھنے سے آتی ہے نا؟”
وہ ابھی بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی، اِس لیے ایک اور سوال کیا۔
"وقت بڑا اُستاد ہے میری دھی۔ سب کچھ سِکھا دیتا ہے۔ تجھے یہ سینس بھی سِکھا دے گا وقت۔”
اب کی بار کوذہ گر کا جواب اُس کے چھوٹے سے زہن سے کافی بڑا تھا۔ جِسے سُن کر وہ خالی خالی نظروں سے کچھ دیر بابا کو تکتی رہی اور پھر اُٹھ کر دھوپ میں رکھے کوذوں کی طرف چل دی۔
اُسے جاتا دیکھ کر کوذہ گر تاسف سے زیرِ لب بولا
رب سائیں تیرا نصیب چنگا کرے پُتر۔
وقت پر لگا کر اُڑ گیا۔ کل کی کم سن آرزو اب ایک نوجوان لڑکی تھی، جو کہ سکالرشپ پر میڈیکل فیلڈ میں ایم۔بی۔بی۔ایس کے آخری سال میں تھی۔و
آخرکار اُس نے انگریزی اسکولوں والی سائنس پڑھ ہی لی تھی۔ اُس کے بابا کافی عمر رسیدہ ہو چکے تھے۔ کام کاج کرنے سے قاصر تھے۔ لہٰذا اُن کا اور اپنا خرچ آرزو کے نازک کاندھوں پہ تھا۔ اور اُن کا اللہ پاک کی ذات کے سِوا اِس جہان میں تھا ہی کون؟ ہسپتال میں باقاعدہ ٹریننگ شروع ہونے میں ابھی چھ مہینے باقی تھے۔ ٹریننگ کے دوران تو اُس کو تنخواہ ملنا شروع ہو جانی تھی۔ لیکن یہ چھ مہینے گزارنا اُسے کافی مشکل لگ رہا تھا۔ پارٹ ٹائم جاب جو وہ اب تک کر رہی تھی، چند نجی وجوہات کی بِنا پر چھوڑنی پڑی۔ اب وہ کئی جگہوں پر نوکری کے لیے اپلائی کر چکی تھی، مگر کہیں سے بھی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی تھی۔ شام کو آخری اِنٹرویو دینے کے بعد جب وہ تھکی ہاری گھر لوٹی تو خلافِ معمول بابا کو کمرے کے بجائے صحن میں بیٹھا پایا۔ وہ فکرمند سی ہو کر اُن کی طرف بڑھی اور اُن کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے پوچھا
"کیا ہوا بابا، سب خیریت تو ہے؟ آپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔”
کوذہ گر نے کھانستے ہوئے اُس کو نیچے سے اُٹھا کر اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور گویا ہوا،
"میں تو ٹھیک ہوں پُتر، جیسے تیسے دِن پورے کر رہا ہوں۔ پر تُو یہ بتا کہ آج کل تُو اتنی پریشان کیوں رہنے لگی ہے؟”
"کیا بابا آپ بھی، میں کیوں پریشان ہوں گی بھلا۔ کوئی پریشانی نہیں ہے مجھے۔ آپ میری فکر نہ کیا کریں۔ بس اپنی صحت کا خیال رکھا کریں۔ دیکھیں کتنے کمزور ہو گئے ہیں آپ۔”
آرزو نے بڑی ہی مہارت سے غلط بیانی کرتے ہوئے بات کو نیا رُخ دینے کی کوشش کی۔ لیکن مدِ مقابل بھی اُسی کے بابا تھے۔ اُسے دیکھ کر ایک پل کو معنی خیز انداز میں مسکرائے اور پھر آواز میں کرب سمیٹ کر بولے،
"آخر وقت نے سِکھا دی نا تجھے کوذے کی سینس؟”
اِس بات پر آرزو نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا،
جی؟ کیا مطلب بابا؟ میں سمجھی نہیں۔
"یاد ہے تجھے، میں نے کہا تھا وقت تجھے کوذے کی سینس سکھا دے گا۔ لے، سیکھ گئی تُو۔ اب جا، بنا لے کوذہ۔”
اُنھوں نے دعویٰ سے کہا تو آرزو کو ایک لمحے کے لیے اُنکی عقل پر شُبہ ہوا۔ لیکن پھر اِس خیال کو جھٹکتے ہوئے بولی،
"مجھے نہیں آتا کوذہ بنانا۔ کتنی بار تو کوشش کر چکی ہوں۔ کبھی بھی ٹھیک سے نہیں بنتا۔ آپ نے کبھی کوذے کی سائنس سکھائی ہی نہیں مجھے۔ تو کیسے آئے گا بنانا۔”
"میں کہہ رہا ہوں نا کہ سیکھ گئی ہے تُو، بنا کے دیکھ لے۔ اب کی بار ٹھیک نہ بنا تو مجھے کوذہ گر نہ کہنا۔”
کوذہ گر ہنوز اپنی بات پہ ہی مُصِّر تھا۔
"ایک عرصہ گزر گیا ہے بابا، چکی اور مٹی کو ہاتھ لگائے۔ اب تو جو تھوڑا بہت چکی پہ کوذہ گھما لیتی تھی، وہ بھی نہیں کر پاؤں گی میں۔”
آرزو نے تھکے تھکے سے لہجے میں جواب دیا۔
"ایک کام کر، میرے کمرے میں جا، پیڑھی کے نیچے سے چکی لے کے آ، جا شاباش۔”
کوذہ گر نے تحکمانہ انداز میں کہا تو آرزو قدرے حیرت اور پریشانی سے بولی،
"کیا ہو گیا ہے بابا۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ اگر کوئی مسئلہ، کوئی تکلیف ہے تو بتائیں مجھے۔”
"میری دھی، میری دھی، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میری فکر نہ کر۔ تو جا نا چکی لے کے آ۔ جلدی جا شاباش۔”
کوذہ گر اُس کی ایک بھی سننے والا نہیں تھا آج۔
"ٹھیک ہے۔ لاتی ہوں۔”
آخر کار تھک کر اُٹھتے ہوئے وہ بولی اور اندر کی طرف بڑھی۔
صحن میں ایک طرف لگی پودوں کی کیاری میں سے تھوڑی سی مٹی نکال کر گوندھی اور پھر چکی کے پاس لے آئی۔
"مجھے نہیں لگتا بابا، کہ میں ابھی بھی کوذہ بنا پاؤں گی ٹھیک سے۔”
چکی اور مٹی کو دیکھتے ہوئے وہ کھوئے کھوئے سے انداز میں بولی۔
"چل، بنانا شروع کر۔ اور ہاں، زہن میں وہ بات رکھنا جو تجھے اندر ہی اندر سے کھائے جا رہی ہے۔”
کوذہ گر اُسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ گویا کوذہ بنانے کی سائنس سکھا رہا ہو۔
وہ چکی کےپاس بیٹھی۔ ہاتھوں کے پیالے میں مٹی لے کر گھومتی ہوئی چکی پر رکھی اور کوذے کی شکل تخلیق کرنے لگی۔ کوذے کا اندرونی خول بناتے ہوئے اُس کے زہن میں اپنا سراپا گردش کر رہا تھا۔ جس طرح وہ خود اندرسے خالی ہو چکی تھی، بالکل وہی خالی پن اِس کوذے میں اُتارنا تھا۔
اپنے دِل اور روح کا جائزہ لیتی، گھومتی چکی پر وہ ہاتھ چلاتی جا رہی تھی اور کوذہ بنتا جا رہا تھا۔ بالکل ٹھیک، اندر سےخالی، باہر سے مکمل۔ جیسے وہ خود تھی۔
آخری سِرےکی تکمیل کرتے کرتے اُس کی آنکھوں سے بے اختیار ایک آنسو بہہ نکلا۔ اُسے کوذے کی سائنس سمجھ آ گئی تھی۔ وقت نے اُسے سب سِکھا دیا تھا۔ کوذہ مکمل کرکے کسی ماہر کوذہ گر کی طرح چکی سے ہتھیلی پہ منتقل کرتی وہ بابا کے سامنے لائی۔
"میں نہ کہتا تھا، سیکھ گئی ہے تو، دیکھ بنا ہی لیا نا آخر؟”
کوذہ گر نے اُس کے بنائے کوذے کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"بابا”
غم و افسوس کے مِلےجُلے تاثرات لیے اُس نے کوذہ گر کی طرف دیکھ کر اُسے پکارا اور پھر کوذے کو ایک طرف رکھ کر بے اختیار زاروقطار رونے لگی۔
"اے کملی دھی، روتے نہیں ہیں۔ چُپ ہو جا شاباش، رونا بند کر اور میری بات سُن۔”
کوذہ گر شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر رو کر دل ہلکا کرنے کے بعد وہ آنسو پونچھتی سیدھی ہوئی اور کوذہ گر کو مخاطب کرتے ہوئے بولی،
"بابا، آپ نےمجھے پہلے کیوں نہیں بتائی تھی یہ بات؟”
"میری دھی، کچھ سبق ایسے ہوتے ہیں، جو ہم پڑھنے یا سُننے سے نہیں سیکھ سکتے۔ یہ تب ہی سمجھ آتے ہیں، جب خود پر بیتتے ہیں۔”
کوذہ گر نے آرام سے اُسے سمجھاتے ہوئے جواب دیا۔
آرزو نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
"پُتر، کوذے کی سینس سیکھنے کے لیے نا انسان کے لیے ایک بات جاننا اور سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ اندر سے انسان چاہے جتنا بھی خالی ہو، جتنا بھی ٹوٹ چکا ہو، دنیا والوں کے سامنے اپنے آپ کو ہمیشہ مکمل پیش کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر دنیا والوں کو ہمارے خالی پن کا اندازہ ہو جائے تو پھر یہ دنیا ہم سے جینے کا حق تک چھین لیتی ہے۔ دنیا صرف کامل نظر آنے والوں، اور ہنستے مسکراتے چہروں کا استقبال کرتی ہے۔ اِس دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اندر سے کتنے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا بڑی ظالم ہے میری بچی۔ اور میں وقت سے پہلے تجھے دنیا کی اِس سفاک حقیقت سے روشناس نہیں کرانا چاہتا تھا۔ پر مجھے پتہ تھا کہ ایک نہ ایک دِن وقت تجھے یہ سبق سِکھا ہی دے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ آج تو اپنے بابا سے اپنی پریشانی چھپا کر مسکرانے کا فن سیکھ کے آئی ہے نا دنیا سے۔”
اِس بات پہ آرزو نے نم آنکھیں اُٹھا کر اپنے بابا کی آنکھوں میں دیکھا۔ اُسے آج پتہ چلا تھا کہ اُس کے بابا کس قدر زیرک بصارت رکھتے تھے۔
"اب یہ بتا، کِس غم نے تجھے خالی کر دیا ہے اندر سے؟”
اُسے کافی دیر سے بالکل خاموش پا کر کوذہ گر نے سوال پوچھا تھا۔
جواباً اُس نے گہری سانس لی اور بولی،
"روٹی بابا، روٹی کی فکر ہے بس۔ میں سمجھ نہیں پا رہی کہ بندے روٹی کھاتے ہیں یا روٹی بندے کھاتی ہے۔”
کوذہ گر اُس کی بات پہ ہلکا سا مسکرایا، اور پھر بولا
"میری کملی دھی، ہم انسان بھی نا اِن کوذوں کی طرح مٹی کے بنے ہیں۔ جس طرح اِن کو بنانے کے بعد پکا کرنے کے لیے دھوپ اور بھٹی کی تپش میں سینکا جاتا ہے نا، بالکل ویسے ہی انسانوں کے بھی ایمان اور یقین کو پکا کرنے کے لیے حالات کی بھٹی میں جلایا جاتا ہے۔ تپش نہ مِلے تو مٹی کچی رہ جاتی ہے۔ جو کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ یہ حالات بھی قدرت کی بھٹیاں ہیں، جو ہمیں پکا کرتی ہیں۔ اگر کچے رہ گئے تو پھر ٹوٹ جاٸیں گے نا۔
اور ایک بات، روٹی کی فکر نہ کر۔ تیرا میرا رازق وہ ہے جو اپنی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی مخلوق کو وقت پر کھلا رہا ہے اور کھلاتا رہے گا۔”
یہ سب سُن کر آرزو کی پژمردہ آنکھوں میں اُمید کی ایک موہوم سی کِرن جاگی۔ وہ اُٹھی، آنکھوں میں پھیلی نمی کو صاف کرتی بابا کے قدموں میں آن بیٹھی اور تشکر آمیز لہجے میں بولی،
"آپ کا بہت شکریہ بابا، آج جو سبق آپ نے مجھے سکھایا ہے، وہ میں اتنے عرصے تک تعلیم حاصل کر کے بھی کبھی نہیں سیکھ پائی۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جس نے مشکل دی ہے، ٹالنے پہ بھی فقط وہی قدرت رکھتا ہے۔ اور وہ جو بھی کرتا ہے، بہتر نہیں، بہترین کرتا ہے۔ آج وقت کٹھن ہے، تو اِس میں اُس رب کی ضرور کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی۔”
” شاباش پُتر، یہ ہوئی نہ بات۔ اب پھر کبھی مایوسی والی باتیں نہ کرنا تُو۔”
کوذہ گر نے پیار سے اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے کہا۔
جواباً اُس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور اُن کی آغوش میں سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔