آپ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی اُس کمزوری پہ قابو پا سکیں، اور کسی حد تک آپ اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، لیکن اُس کے باوجود بھی آپ کا کمپلیکس آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ہر انسان کے کچھ نہ کچھ کمپلیکسز ضرور ہوتے ہیں۔ جن کا سرا کہیں ماضی کے کسی ناخوشگوار واقعے سے جُڑا ہوتا ہے۔ اکثر ایسے ناخوشگوار واقعات بچپن سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ بچے شرمیلے ہوتے ہیں۔ بولڈ بچوں کی طرح کھل کے بات کرنا، یا اپنی خواہش کا اظہار کرنا اُنہیں مشکل لگتا ہے۔ تو اُن کی یہ عادت اُن کی کمزوری بن جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ عادت اُن کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی جاتی ہے اور یہ لوگ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی اپنے کمپلیکسز سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
لاشعوری طور پر یہ ہر نیا کام کرنے سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ لوگ اس بارے میں کیا کہیں گے، کیا لوگ اس نئے اقدام کے ساتھ مجھے قبول کر پائیں گے؟ یا پھر اگر میں ناکام ہو گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟
ایسے لوگ اپنے ہر کام، یا ہر ایک کامیابی پر لوگوں سے ملنے والے اپروول کے منتظر رہیں گے۔ اُن کی کامیابی کی اُن کی اپنی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔ وہ یہ سوچیں گے کہ لوگ اب میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اور یہ سب وہ لاشعوری طور پر کرتے ہیں اپنے کمپلیکس کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔ کیونکہ اُنہیں بچپن سے ہی یہ احساس دلایا جاتا رہا کہ آپ کا صرف وہی کام ٹھیک ہے، جسے لوگ پسندیدگی کی سند سے نوازا دیں۔
اس معاملے میں اساتذہ اور والدین کو خاصی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کی زندگی میں والدین اور استاد کا مقام سب سے اہم ہوتا ہے اور یہ دونوں ہی اُس کی جسمانی اور روحانی تعلیم و تربیت کے ذمے دار ہوتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کریں، بچوں میں باہمی اتفاق، احترام اور محبت کے جذبات پروان چڑھائیں اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے اندر خود اعتمادی کی صفت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
اپنے بچوں کی سرگرمیوں کی غیر محسوس انداز میں نگرانی کریں اور دیکھیں کہ کہیں آپ کے بچوں میں کوئی منفی عادات تو نہیں پنپ رہیں۔ حساس بچوں کی وقتاً فوقتاً کونسلنگ کریں اور اُن کے اندر اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ احساسِ ذمے داری اجاگر کرنے کے کے لیے اُنہیں چھوٹی چھوٹی ذمے داریاں دیں جنہیں پورا کرنے کی صورت میں انعام سے نوازیں۔
بعض والدین بچوں پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں اور بعض حد سے زیادہ نرمی سے کام لیتے ہیں۔ یاد رکھیں ہمارا دین ہر معاملے میں اعتدال سے کام لینے کا حکم دیتا ہے۔
جہاں بےجا سختی بچوں کو سرکش بنا سکتی ہے، وہیں بےجا نرمی بھی اُنہیں راہِ راست سے بھٹکانے کا سبب بن سکتی ہے۔
اسی طرح اساتذہ کو بھی بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور کردار سازی پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ جماعت میں بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ کمزور اور حساس بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے اُنہیں مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اُن کی تھوڑی سی محنت پر بھی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے۔
بچپن میں ہم سب نے اپنے کسی نہ کسی استاد سے اپنی کاپی پر سٹار بنا کر دینے کی درخواست ضرور کی ہو گی۔ یہ عموماً اُس وقت ہوتا تھا جب ہم نے کوئی کام خوب محنت سے اور دل لگا کے کیا ہوتا تھا اور ہم چاہتے تھے کہ استاد جی خوش ہو کر سٹار بنا کر دیں۔ اور اگر استاد جی مصروفیت میں جلدی جلدی کاپی چیک کر کے ہمیں پکڑانے لگتے تو ہم باقاعدہ منت ترلے کیا کرتے تھے ایک سٹار پانے کے لیے۔ اب سوچیں تو اپنی اس بچگانہ حرکت پر ہنسی بھی آتی ہے لیکن دیکھا جائے تو ہم اب بھی یہی عمل اپنی اپنی زندگیوں میں تواتر کے ساتھ دوہرا رہے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ سٹار کی جگہ کچھ اور چیزوں نے لے لی ہے۔ دفتر میں کسی کام کی تکمیل پر ہم اپنے باس سے ایک تعریفی جملہ سننا چاہتے ہیں۔ کسی اچیومنٹ پر ہمارے کان تالیوں کی گونج سننے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ گھر میں ہم اپنے گھر والوں کے لیے کچھ نیا کریں تو بھی اُن کی طرف سے اظہارِ تشکر کے منتظر رہتے ہیں۔
اس سب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہمیں ہمیشہ، عمر کے ہر حصے میں رہتی ہے۔ اور یہ حوصلہ افزائی ہی ہمیں مزید آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کے لیے بھی آپ کی طرف سے ملنے والی حوصلہ افزائی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ اُنہیں آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
بحیثیت والدین، استاد، سرپرست یا نگران یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کے اندر جتنا ہو سکے مثبت عادات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ وہ کل کو ذمے دار شہری بن کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔