حوصلہ افزائی

آپ کس چیز کا انتخاب کرتے ہیں

کامیابی یا ناکامی کا تعلق قسمت یا نصیب سے نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگوں میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ خوش بختی صرف ہاتھوں کی لکیروں اور پیشانی کی سلوٹوں میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کامیابی  یا ناکامی کا سو  فیصد انحصار انسان کی اپنی محنت اور کوشش پر ہے۔ ہر انسان اپنی قسمت سے صرف وہی کچھ حاصل کر پاتا ہے جس کے لیے وہ جدو جہد کرتا ہے۔ اس روئے زمین پر کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ہو گا جس کی زندگی میں کبھی کوئی مشکلات یا مصائب نہ آئے ہوں۔ کوئی امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا، دیس میں ہو یا پردیس میں، مشکلات سب کی زندگی میں یکساں طور پر آتی ہیں۔ ان میں سے  وہ لوگ جو ان مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکل آتے ہیں تو اُس کے پیچھے اُن کی مسلسل محنت اور انتھک  جدو جہد کارفرما ہوتی ہے۔

اگر تو آپ ایک مثبت سوچ اور فکر کے حامل انسان ہیں تو آپ کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اگر آپ مثبت پہلوؤں پر نظر رکھیں گے تو منفیت آپ پر اثر انداز نہیں ہو پائے گی، نتیجتاً آپ کسی بھی قسم کے مشکل حالات سے باآسانی نمٹ سکیں گے۔

اس کے بر عکس اگر آپ کے اندر منفیت کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے بہ نسبت مثبت انداز فکر کے تو پھر چھوٹا سا مسئلہ بھی آپ کو بہت بڑا نظر آئے گا۔ راہ میں پڑے ایک کنکر کو بھی آپ پہاڑ سمجھ کر اُس سے گھبرانے لگیں گے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کی یہ منفی سوچ پوری طرح آپ پر غلبہ پا لے گی اور آپ سدا کے لیے ایک  ناکام شخص بن کر رہ جائیں گے۔ آپ کی یہ منفی سوچ ہمیشہ کے لیے آپ کے پاؤں کی بیڑی بنی رہے گی۔

اس لیے کوشش کریں کہ ہر چیز اور ہر بات میں منفی کے بجائے مثبت پہلوؤں پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں۔

یقیناً شروع شروع میں یہ بہت مشکل ہو گا، لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ آپ کی مسلسل کوشش سے ایک دن آپ خود بخود چیزوں میں مثبت پہلوؤں کو دیکھنے کے عادی ہو جائیں گے۔ ذیل میں دی گئی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں اور خود اندازہ لگائیں کہ مثبت سوچ کس کس طرح انسان کو ذہنی اذیت سے بچاتے ہوئے پرسکون اور اطمینان بھری زندگی کی طرف رہنمائی کا سبب بن سکتی ہے۔ 

  حوصلہ افزائی کی ضرورت ہمیں عمر کے ہر حصے میں رہتی ہے۔

ایک آدمی نے پیسہ پیسہ جوڑ کر اپنے بیوی بچوں کیلئے نیا گھر بنایا۔ ایک دن یہ گھر مکمل ہوگیا۔ اس آدمی نے فیصلہ کیا کہ تین دن بعد اپنا گھر کا سامان اور خاندان اس گھر میں شفٹ کرے گا۔ شفٹنگ سے ایک دن پہلے رات میں زلزلہ آیا اور اسکا نیا گھر اس زلزلے میں گر گیا۔ صبح اہل محلہ اور عزیز و اقارب سب افسوس کیلئے ملبے پر کھڑے تھے۔

مالک مکان جب پہنچا تو اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا۔ اس نے سب میں مٹھائی بانٹی تو ایک صاحب نے کہا کیا تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ اتنا نقصان ہوا اور تم مٹھائی بانٹ رہے ہو۔ مالک مکان نے کہا نہیں میں تو شُکر ادا کر رہا ہوں کہ زلزلہ ایک رات پہلے آگیا۔ میں بال بچوں کے ساتھ یہاں ہوتا اور زلزلہ آتا تو اس وقت میں مٹھائی نہیں بانٹ رہا ہوتا بلکہ ملبے کے نیچے دبا ہوتا۔

اس شخص کے سامنے بھی حالات کو دیکھنے کے دو آپشنز موجود تھے۔ ایک منفی دوسرا مثبت۔ اگر گھر کے گر جانے کے منفی پہلو کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے نقصان کا افسوس کرنے بیٹھتا تو عین ممکن تھا کہ غم و افسوس کے احساس سے اُس کا دل بند ہو جاتا۔ لیکن کیا کمال کا حسنِ نظر تھا اُس کے پاس کہ اتنے بڑے نقصان کے باوجود بھی اُس نے اپنی توجہ مثبت پہلو پر مرکوز رکھی۔ 

 فرض کریں آپ کو آج جلدی دفتر پہنچنا ہے لیکن راستے میں آپ ٹریفک جام میں پھنس گئے ہیں۔ آپ نے برا پہلو سوچنا شروع کیا کہ بلاوجہ میرا وقت ضائع ہو رہا ہے تو آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگے گا۔ آپ کو غصہ آئے گا آپ دوسروں کو اور خود کو کوسنا شروع کر دیں گے۔  آپ کا ذہن الجھن  کا   ہونا شروع ہو جائے گا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آپ کی اس فرسٹریشن میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس فرسٹریشن کے بدلے میں نہ تو ٹریفک کم ہو گا اور نہ ہی آپ وقت پر دفتر پہنچ پائیں گے۔ البتہ آپ کا ذہنی سکون ضرور تباہ و برباد ہو جائے گا۔

  خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں

لیکن اس کے بر عکس اگر آپ نے یہ سوچا کہ اس مصروف زندگی میں جب وقت ضائع کرنے پر بندہ خود ہی احساس جرم کا شکار ہوتا ہے، قدرت نے کچھ ایسا وقت دیا جو مجبوراً ضائع کرنا ہی ہے تو آپ اس وقت سے لطف لینا شروع کر دیں۔ گاڑی میں اپنی پسند کی موسیقی لگا لیں گے۔ آسمان اور پرندوں کو دیکھیں گے یا آس پاس کی مخلوق خدا آپ کی توجہ لے لے گی اور آپ فرسڑیٹ ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ پر سکون محسوس کریں گے۔ 

اب دیکھیں کہ ایک عادت آپ کو بلڈ پریشر کا مریض بنا سکتی ہے جب کہ دوسری عادت آپ کو سخت سے سخت حالات میں بھی اچھا پہلو ڈھونڈنے اور پرسکون رہنے کا انعام دے سکتی ہے۔ اب یہ سو فیصد آپ پر منحصر ہے کہ آپ کس چیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ 

4.7/5 - (3 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔