رہنمائی

موثر طریقہ تدریس کیا ہے؟

ہمارے سکولوں میں ایک ہی طریقہ تدریس رائج ہے ۔بچوں کو سبق سمجھا دو ،پڑھا دو ،جو سمجھ لے ،اچھی طرح رٹ لے، وہ زہین ہے ۔جو سبق یاد نہ کر سکے ،اسے سمجھ نہ سکے ،وہ کند ذہن ہے۔ استاد،والدین دونوں ہی ایسے بچوں پر کند ذہن کا لیبل لگا کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے،جدا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ہر انسان قابل ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہر انسان میں اللہ پاک نے کچھ خوبیاں رکھی ہیں۔

بچوں کے نفسیاتی مسائل کا معائنہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی ،کہ  ایک بچہ اگر پڑھائی میں پیچھے ہے اسے سبق جلدی سمجھ نہیں آتا یا یاد نہیں ہو رہا ہوتا تو اس کی کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسے گھر میں کوئی پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس کی صحت خراب ہو سکتی ہے ۔کئی بچے زہین ہوتے ہیں لیکن گھر سے توجہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ پڑھائی میں دلچسپی کھو دیتے ہیں۔

کبھی کسی نے فیل ہوے بچے کی نفسیات کا معائنہ کیا؟ان محرکات کا جائزہ لیا جس سے بچہ اس حد تک آیا ہے سب کی نظر اس کی ذات پہ تنقید کرنے پر ہوتی ہے حل پر نہیں۔بچے دو تین بار فیل ہو کر خود اعتمادی کھو دیتے ہیں اور والدین مایوس ہو جاتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے بچے پرائمری میں سکول چھوڑ دیتے ہیں جو رہ جاتے ہیں وہ اپاہجوں کی طرح چند سال مزید نالائقی کا تمغہ سینے پر سجاتے ہیں اور مڈل سے ہائی سکول کے درمیان وہ بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔

چند موثر طریقہ تدریس میں اپنے مشاہدے کے والدین کے لیے عرض کرنا چاہوں گی  جس سے اساتذہ بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔

موازنہ  کرنا چھوڑ دیں

ہر بچہ دوسرے سے الگ اپنی ذات میں بہترین ہے۔ہر ایک کی خوبیاں دوسرے سے جدا ہیں۔ اپنے بچوں کا دوسروں کے بچوں سے موازنہ کبھی نہ کریں ہمیشہ اپنے بچوں کی خوبیوں کو ڈھونڈیں۔یہ نہ کریں کہ فلاں کے بچے نے 90 نمبر لیے تمہارے 60 کیوں آئے؟اس کی بجائے ان وجوہات پر غور کریں جس سے آپ کے بچے کے کم مارکس آئیں ہیں ۔اس کی پڑھائی میں دلچسپی کم ہوئی۔بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ بڑی خوشی کی بات ہے تمہارے 60 نمبر آئے، کئی بچوں کے تو  50 آئیں ہیں ،کئی تو صرف پاس ہوے ہیں ،اگلی دفعہ زیادہ محنت کرنا ۔ایسے بچے کو خوشی ملے گی وہ محنت کی طرف راغب ہو گا دوسری صورت میں ہو سکتا ہے وہ اگلی دفعہ 60 بھی نہ لے۔

  جسمانی اور ذہنی صحت کو کیسے بہتر بنائیں

اپنے بچے کی ذہنی استعداد دیکھیں

کچھ بچے غیر معمولی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں، ایک دفعہ بات سمجھانے پر سمجھ جاتے ہیں ۔سبق جلدی یاد کر لیتے ہیں بھولتے نہیں۔کچھ بچے متوسط ہوتے ہیں ۔بات دیر سے سمجھتے ہیں سبق یاد کرنے میں زیادہ وقت لیتے ہیں۔ جلدی بھول بھی جاتے ہیں۔کچھ بچے متوسط سے بھی نچلے درجے کے ہوتے ہیں ۔ان کو سبق بہت مشکل سے یاد ہوتا ہے ،بار بار سمجھانا پڑتا ہے ،پھر جا کر بات سمجھ آتی ہے۔ایسے بچوں کا آئی کیو لیول 60 ہوتا ہے ۔  ا ن کو سائنس کند ذہن میں ہی شمار کرتی ہے۔ ایسے بچے بھی اگر غیر معمولی محنت کریں تو چل سکتے ہیں۔ان کی کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں، سوائے سخت محنت کے۔

جو سبق ذہین و فطین بچے دس منٹ میں سبق یاد کریں گے، متوسط بیس سے پچیس منٹ لیں گے اور کند ذہن بچوں کو یہ ہی سبق ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں یاد ہو گا ۔اب مئسلہ یہاں سے شروع ہوتا ،استاد اور والدین ہر بچے سے بیس منٹ توقع رکھتے ہیں ۔اس کے بعد طعن و تشنیع اور مار پیٹ شروع ہو جاتی ہے۔اپنے بچے کا آئی کیو لیول دیکھیں ،اس کو اس حساب سے ٹریٹ کریں۔متوسط بچہ بھی ذہین بن سکتا ہے ،بس اس کو محنت زیادہ کرنی پڑے گی۔

  اچھی ملازمت کی تلاش ایسے کریں

مار کہاں پرضروری ہے

میں نے اکثر دیکھا ہے  کہ ٹیچرز چاہے سکول کے ہوں یا مدارس کے ،یا ٹیویشن والی باجیاں، جب بھی کسی بچے کو سبق نہ آئے تو کتاب پکڑی اور اس کے سر میں زور زور سے مارنا شروع کر دی۔ واللہ یہ کتنا خطرناک ہے، ایسے تو جو اسے یاد ہونا وہ بھی نہیں ہو گا۔ٹھیک ہے کچھ بچے شرارتی ہوتے ہیں، مار کے ڈر سے پڑھتے ہیں ،مارنا ضروری ہوتا ہے ، لیکن کمر پر ہلکی سی لگا لیں ،یا ہاتھ پر سٹک، لیکن سر میں مارنا بہت نقصان دہ چیز ہے۔

بچہ سبق دہرا نہ رہا ہو، شرارتیں کر رہا ہو تو ہلکا سا مار دیں، وہ بھی دو تین بار سمجھانے کے بعد ،لیکن اگر وہ دہرا بھی رہا ہے لیکن سناتے وقت بھول جاتا تو پھر نہ ماریں ۔اس کا ذہن دیکھتے ہوے یاد کرنے کا وقت بڑھا دیں۔سبق کم کر دیں یا سبق کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیں۔اسے اعتماد میں لیں سمجھائیں۔پڑھنے کا شوق پیدا کریں پڑھنے سے بچہ کیا بنے گا اسے وہ خواب دکھائیں۔ کہتے ہیں جو شوق پیدا کیے بغیر پڑھاتا ہے ،وہ ٹھنڈے لوہے پر وار کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔

5/5 - (2 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔