او لیول یا میٹرک کی تعلیم کے انتخاب کے حوالے سے والدین ہی نہیں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی مخمصے کا شکار رہتی ہے۔ یہ خاصا اہم سوال ہے کہ میٹرک یا او لیول میں سے کس کا انتخاب کیا جائے، تاہم اس حوالے سے جو وضاحت زیادہ ضروری ہے، وہ یہ کہ ماہرین میٹرک یا او لیول میں سے کسی کو بھی کامیابی یا ناکامی کی ضمانت قرار نہیں دیتے۔
ان کے مطابق میٹرک یا اولیول کے انتخاب سے قبل، والدین کے لیے جو چیز سمجھنا اہم ہے وہ یہ ہے کہ، او لیول کرنے سے بچہ کامیاب نہیں ہوتا اور نہ ہی میٹرک کرنے سے ناکام۔ زندگی میں مقصد کےحصول کے لیے جذبہ و لگن ضروری ہے اور جن طالب علموں میں یہ جذبہ موجود ہو وہ کسی بھی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں۔
والدین کی ایک بڑی تعداد کو میٹرک اور او لیول کا فرق نہیں معلوم۔ بہت سے والدین فخریہ کہتے ہیں ہمارا بچہ تو او لیول کر رہا ہے۔
آج کل ” او لیول ” فیشن بنتا جا رہا ہے ہزاروں ایسے اسکول وجود میں آ گئے ہیں جو او لیول کے نام پر معصوم والدین کو لوٹ رہے ہیں اور ان سے بھاری بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں ، لیکن سچ پوچھیے تو انھیں خود یہ بھی نہیں معلوم کہ "او لیول” سے کیا مراد ہے۔ او/اے لیول کا تعلق کیمبرج/آکسفورڈ بورڈ انگلینڈ سے ہے۔
اس طرح میٹرک اور او لیول برابر ہیں جبکہ اے لیول اور انٹر میڈیٹ برابر ہیں۔ انٹر یا اے لیول کرنے کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا جا سکتا ہے۔
دونوں طرزِ تعلیم کا دورانیہ10سال پر مشتمل ہوتا ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق او لیول اور میٹرک کی تعلیم میں خاص فرق اخراجات کا ہے کیونکہ او لیول کی تعلیم میٹرک کے بنسبت خاصی مہنگی ہے۔جن طالب علموں نے مستقبل میں بیرون ملک پڑھنے جانا ہے انھیں "او لیول ” کرنا چاہیے اور جو طالب علم پاکستان کی جامعات میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں انھیں میٹرک بورڈ کے تحت اپنی تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستانی جامعات میں کالج سے انٹر میڈیٹ کرنے والے طالب علموں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
میٹرک اور او لیول کی تعلیم میں دوسرا اور اہم فرق نصاب کا ہے۔ او لیول کا نصاب جامع اور تصوراتی بنیادوں پر مبنی ہوتا ہے، جس سے طلبہ میں کریٹیکل تھنکنگ پروان چڑھتی اور ادراک کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ معیاری اور مشکل نصاب طلبہ کو عملی دنیا میں درپیش مشکلات کے لیے پہلے سے ہی تیار کردیتا ہے۔ دوسری جانب میٹرک کا نصاب پاکستان میں کئی سال سے وہی چلا آرہا ہے، جس کے سبب طلبہ تصوراتی بنیادوں پر مطالعہ کرنے کے بجائے رٹا لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میٹرک دو سالوں پر مشتمل ہے۔ یعنی سات پرچے نہم جماعت میں اور سات ہی دہم جماعت میں ہوتے ہیں۔ لازمی مضامین میں انگریزی، سندھی ، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات شامل ہیں۔او لیول کے لازمی مضامین میں اردو، اسلامیات ، سوشل اسٹڈیز اور انگلش شامل ہیں۔
محنتی طالب علموں کو سسٹم سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جنھیں پڑھنا ہوتا ہے وہ میٹرک سسٹم میں بھی پڑھ جاتے ہیں اور جنھیں نہیں پڑھنا ، او لیول سسٹم بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
میں ایسے کئ طالب علموں کو جانتا ہوں جو” او لیول ” سسٹم کے تحت پڑھائی کرنے کے باوجود زندگی میں ناکام ہیں، جبکہ دوسری طرف ایسے کئ طالب علم بھی ہیں جو میٹرک سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ایک کامیاب وکامران زندگی گزار رہے ہیں۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔