انسان کا اپنی صلاحیتوں، رجحانات، جذبات، شوق اور قابلیت کو جاننا ’’خود شناسی‘‘ یا ’’خود آگہی‘‘ کہلاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے سر بستہ رازوں میں سب سے پیچیدہ راز انسان کی ذات ہے۔ اور اس کی دریافت کرنا، دنیا کا مشکل ترین کام، یہ دریافت اس وقت تک نہیں کی جاسکتی ، جب تک کہ انسان اس کی خواہش ، محنت ، کوشش نہ کرلے، جدوجہد کا عادی نہ ہو، راستے نہ تلاش کرلے، ٹھوکریں نہ کھائے، گرے سنبھلے، پھر کہیں جاکر اسے اپنی منزل ملتی ہے۔ اس لئے اکابرین خودشناسی کے عمل کو ایک سفر سے تشبیہہ دیتے ہیں، ہر انسان کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کسی اور کی اندھی تقلید کرنے کے بہ جائے اپنا راستہ خود بنانا چاہیے۔
ہر انسان صلاحیتوں سے مالا مال ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ بہت سے انسان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرلیتے ہیں اور بہت سے تا عمر اپنی کھوج نہیں کرپاتے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آپ میں صلاحیت تو موجود ہے لیکن جب تک آپ اس کی صحیح انداز میں نشوونما نہیں کریں گے اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کرسکتے۔ بہت سےنوجوانوں کو اپنے اندر چھپی اس گرانقدر صلاحیت کا علم ہی نہیں ہوتا اور کچھ علم ہوجانے پر بھی حالات کے جبر کے باعث اس کی نشوونما نہیں کرپاتے یا پھر حوصلے کی کمی ان کے قدموں کو جکڑ لیتی ہے۔
اس طرح وہ کامیابی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس دھن کے پکے اور حالات کے جبر کو خاطر میں نہ لانے والے نوجوان راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے ثابت قدمی کے ساتھ اپنی صلاحیت کی نشوونما کرکے کامیابی کی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ اس راہ میں صلاحیت ان کی سب سے بڑی طاقت، سب سے بڑی امنگ بن جاتی ہے۔ دنیا میں جس نے بھی کوئی قابل قدر کام کیا اس میں جتنا دخل اس کی صلاحیتوں، محنت، کوشش، جدوجہد، شوق اور لگن کو حاصل رہا اس سے زیادہ اس کی ’’خود شناسی‘‘ نے اسے مدد فراہم کی۔
خود آگہی یا خود سے شناسائی کیسے حاصل کی جائے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود آگہی یا خود سے شناسائی کیسے حاصل کی جائے؟ اس کے لئے اکابرین اور مفکرین تین بنیادی سوالات پیش کرتے ہیں اور خود شناسی کے طالب کو اپنے قلب و ذہن میں تلاش کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہر انسان زندگی میں کوئی نہ کوئی مقصد ضرور بناتا ہے اور ہر ایک کا مقصد حیات دوسرے سے مختلف و منفرد ہوتا ہے، لیکن سب سے بہترین اور اچھا مقصد وہ ہے، جس میں دوسرے انسانوں کے مفادات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ کیا آپ کے مقصد حیات میں دوسروں کی بھلائی، لوگوں کا نفع اور خوشیوں کا پہلو نمایاں ہے؟ قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز نکمی اور بے کار نہیں ہے۔
خود کو جان لینے کے بعد، اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ادراک کرلینے سے، آپ ہر قسم کے حالات اور واقعات کا سامنا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ایسے نوجوان مخالفانہ تبصروں اور رویوں سے گھبراتے ہیں، نہ ہی مایوس ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ جان لیتے ہیں ہے کہ انہیں کب، کہاں، کیا، کیسے کام کرنا ہے،وہ اپنی حدود سے واقف ہوتا ہے۔ اس لئے طیش میں آکر انسانیت کی حد سے نیچے بھی نہیں اترتا۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔