کردار سازی

لوگ غریب کس وجہ سے ہیں

ہمارے معاشرے میں آج بھی لاکھوں لوگ مڈل کلاس سے نیچے غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس کی ایک جنرل وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔امیروں کے بچے آکسفورڈ سلیبس پڑھتے ہیں  جبکہ غریب کے لیے گورنمنٹ سکول اور بہت سوں کو بھی وہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔بچوں کو تقدیر بدلنے کا سبب گردانا جاتا ہے ، پر جب غریب کے بچے کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک خواب ہو گا وہ کیسے سہارا بنے گا ۔ اسے تو خود سہارے کی ضرورت ہو گی۔

کچھ لوگ سکول چھوڑ کر کوئی ہنر سیکھ لیتے ہیں جس سے دو وقت کی روٹی کمانے لگ جاتے ہیں اکثریت نکمی،ہڈ حرام ہو جاتی ہے نشے پے لگ جاتی ہے آوارہ ہو جاتی ہے جرائم کا نناوے فیصد تعلق غربت سے ہے جتنے بھی جرائم پیشہ افراد پکڑے جاتے ہیں وہ سب کے سب جاہل، آوارہ اور نشئی ہوتے ہیں۔مائکروسافٹ کا بانی بل گیٹس کہتا اگر آپ غریب پیدا ہوے ہو تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن اگر آپ غریب مرتے ہو تو اس میں آپ کا قصور یے۔غریب لوگوں کا نسل در نسل غریب رہنے کی کچھ وجوہات ہیں۔

محنت نہ کرنا

گزشتہ رات ہم سب دوست بیٹھے ہوے تھے تو ہاتھوں کی لکیروں کی بات ہو گئی میں نے کہا چھوڑو لائینز کو نہ دیکھو یہ بندے کی عادات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں کوئی چیز انسان کی تقدیر بدل سکتی ہے تو وہ اس کی محنت اور دعا ہے اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔

جتنے بھی غریب لوگوں کو میں جانتی ہوں ان میں محنت کی عادت نہ ہونے کے برابر دیکھی ہے۔ مفتے کی لت لگی ہوئی ہے ہر وقت نظر مانگنے پے ہوتی ہے کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ان کواپنے رونے اس قدر لطف دیتے ہیں کہ کبھی اپنی حالت بدلنے کا خیال ہی نہیں آتا ۔ہمارے اردگرد کے محلوں کی بیسیوں عورتوں کو میں جانتی ہوں آئے دن مانگنے آتی ہیں کہ گھر آٹا نہیں شوہر نشئی ہے کام نہیں کرتا۔ کام کرنے کا کہیں تو ساتھ ہی موت پڑ جاتی ہے۔

  دوسروں کے دل جیتنے کا طریقہ

 چند دن پہلے ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ مانگنے والیوں کا بہتر حل یہ ہے کہ ان کو کہیں کہ ہماری میڈ کہیں چلی گئی ہے آپ کام کر لیں فوراً ہی بھاگ جائیں گی۔رمضان میں ایک عورت آئی ۔اس کو میں نے پیسے دیے۔ اسی وقت پانچ چھ عورتیں پانچ پانچ منٹ کے وقفے آئیں شکلیں  ایک جیسی  ہی تھیں ماں،دادی پھوپھو ،بہنیں۔ایک جو لے کر جاتی وہ دوسروں کو جا کر بتاتی ۔ہمارے گھر کے سامنے والے گھر پینٹ ہو رہا تھا تو وہ لڑکا ان کو دیکھ رہا تھا اس نے ہمیں بتایا کہ ان سے بچ کے رہو ۔یہ ایک جا کے باقی عورتوں کو آپ کے گھر کا بتا رہی تھیں ۔

اکثر غریب ظالم لگتے ہیں

زیادہ تر غریب ظالم ہوتے ہیں ۔ان کی نظر میں اتنی بھوک ہوتی ہے یہ کسی کو بھی اچھا کھاتا،پہنتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے اکثر جرائم کے کیسیز میں گھر کے ملازمین شریک ہوتے ہیں۔  غربت ان سے احساس چھین لیتی ہے۔ یہ بے حس ہو جاتے ہیں ۔وہ دوسروں کا حق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جتنے بڑے بڑے یہ کام کر جاتے ہیں نارمل انسان کا دل سن کے ہی دہل جاتا ہے۔یہ سفید پوش لوگوں کا حق کھاتے ہیں۔

غریبوں کے لیے فنڈز کا اجرا

غربت کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے غریبوں کے لیے کروڑوں اربوں کے فنڈز کا اجرا ہے۔ فی بندے کو بیس سے پچاس ہزار ملتے ہیں وہ آرام سے بیٹھ کے کھا جاتا ہے اس طرح کی پالیسیز کا خاتمہ ہونا چاہیے اس کی بجائے انکے لیے فری ہنر سیکھنے کا اہتمام ہونا چاہیے بعد میں انکو کام دینا چاہیے تا کہ محنت کی عادت پڑے فری کے پیسے دینے سے نہ کبھی غربت کا خاتمہ ہوا ہے نہ آئیندہ ہو گا میرے دل میں کبھی یہ بات آتی ہے کہ حکومت کو خط لکھوں اور ساری فری پالیسیز کو بند کرنے کی درخواست کروں۔

  خود کو اچھے ماحول کے حصار میں رکھنا کیوں ضروری ہے؟

بچت نہ کرنا

میرے مائکے میں ہمارے ڈیرے کے پاس چند گھر ہیں ۔غریب ہیں۔ شوہر مزدوری کرتے ہیں ۔جتنا کماتے ہیں عورتیں اتنا ہی خرچ کر دیتی ہیں ۔کوئی ایمرجنسی یا فوتگی وغیرہ ہو جائے کہیں جانا پڑ جائے تو ساری اردگرد کے گھروں سے کرایہ مانگ رہی ہوتی ہیں۔ انہیں گھروں میں سے ایک گھر ایسا بھی ہے جس کی عورت نے کبھی پیسے نہیں مانگ۔ے وہ میری امی کو بتا رہی تھیں کہ روز کے خرچے میں سے بیس تیس رکھتی جاتی ہوں ۔کہیں آنا جانا ہی پڑ جاتا ہے۔

ایک دفعہ صبح میرے ابو بڑا غصہ تھے کہ انہوں نے ساری رات سونے نہیں دی۔ا ڈھول بجا کے ناچتے رہے ہیں۔ سارا خاندان اکھٹا ہوا ہے دیگیں پکی ہیں بیٹا ہوا ہے۔اگلے ہی دن ایک خان بھائی بڑی بے عزتی کر رہا تھا کہ میری سامان کی قسط دو نہیں تو سامان واپس کرو ۔ادھار برتن اور مشینری خریدنے کی کیا ضرورت ہے جس کو استعمال بھی نہیں کرنا بس اندر لے کے رکھنا   ہے۔

تعلیم حاصل نہ کرنا

ان لوگوں کو یہ ہوتا ہے کہ بچہ پڑھائیں گے تو پیسہ جائے گا کام پے ڈالیں گے۔  تو پیسہ آئے گا اس لیے یہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تعلیم دلانے کی بجائے کام پے ڈال دیتے ہیں کام کونسا لاکھوں کا ہوتا ہے بس یہ ہی کہ دو وقت کی روٹی کما لے۔

4/5 - (2 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔